علم سے محبت
آج ایک بہت اہم موضوع پر کچھ لکھنے جا رہی ہوں۔۔۔حدیث کا مفہوم ہے کہ علم حاصل کرنا ہر مسلمان مرد عورت پر فرض ہے۔۔۔علم چاہے دینی ہو یا دنیاوی انسان کو آگہی دیتا ہے اور ایک نئی دنیا سے روشناس کراتا ہے۔۔۔۔علم حاصل کرنے کے لئے بہت سے لوگوں نے بڑی بڑی قربانیاں دیں۔۔۔۔صحابہ کرام رضی اللہ تعالی عنہ نے اپنے گھر بار اور اور اپنا ملک تک چھوڑ دیا علم کی تلاش میں۔۔۔۔اور اس بات کے لئے سرگرداں رہے کہ یہ علم کسی طرح آنے والی نسلوں تک پہنچ جائے۔۔۔۔اس کے علاوہ بزرگاندین بڑے بڑے مفکرین اور بڑے بڑے سائنسدانوں نے علم حاصل کرنے کے لئے بہت محنت کی اور اس کو آنے والی نسلوں تک پہنچانے کے لیے بہت کام کیا۔۔۔۔یہ ان بہت سے لوگوں کی محنت اور بہت سے لوگوں کی قربانیوں کا نتیجہ ہے کہ آج ہم تک علم پہنچا بہت سی چیزوں کی اگہی ہمیں دین و دنیا کی ہمیں سمجھ آئی یہ علم کتابوں میں محفوظ ہے جس سے ہم مستفید ہوتے ہیں اس کے علاوہ اب ٹیکنالوجی کا دور ہے تو ان کے کارنامے ہم میڈیا پر بھی ریکھتےہیں۔۔۔۔
علم حاصل کرنا عبادت ہے۔۔۔۔اللہ تعالی کی طرف سے جو وحی اترتی تھی جو آیتیں نازل ہوتیں تھی وہ پہلے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر آتی تھیں پھر اس کے بعد رسول اللہ صل وسلم کو صحابہ کو بتاتے تھے پہلے وہ صرف صحابہ کے دلوں میں محفوظ تھیں اس کو باقاعدہ تحریری شکل دی گئی اور اب وہ سب قرآن پاک کی صورت میں محفوظ ہے۔۔۔۔قرآن کریم کو تمام کتابوں میں سب سے افضل حیثیت حاصل ہے کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی کتاب ہے
اس کے علاوہ بہت ساری کتابیں احادیث کی ہمارے پاس موجود ہیں جو بہت محنت کے بعد مرتب کی گئی ہیں۔۔۔۔اس کے علاوہ بہت سے علوم پر مختلف کتابیں لکھی گئیں ہمارے نصاب میں بھی بہت سی کتابیں شامل ہیں جن سے ہم مستفید ہوتے ہیں۔۔۔
میں جس اہم پہلو کو یہاں زیر غور لانا چاہ رہی ہوں وہ ہے علم سے محبت۔۔۔ہمارے دلوں میں کتاب کی عظمت اور اس سے جڑی جو بھی چیزیں ہوتی ہیں ان کی قدر و قیمت کا احساس کیسے ہو۔۔۔چاہے وہ نصاب کی کتابیں ہوں ۔۔۔۔نصاب کی کتابیں ایک خاص اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ انہی کے بل بوتے پر ہم آگے بڑھتے ہیں ہمیں ڈگریاں ملتی ہین اور ہمیں اعلی مقام حاصل ہوتا ہے۔۔۔
اصل مقصد میرا یہ ہے کہ میں نے جو بات محسوس کی ہے ہم لوگوں میں اور ہمارے بچوں کے دلوں میں علم سے محبت ختم ہوتی جا رہی ہے۔۔۔ہمارے بچے نصاب کی کتابوں کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں اور ان کی قدر اور اہمیت ان کے دلوں میں نہیں ہے۔۔۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اسکولوں میں پڑھایا تو جاتا ہے لیکن علم سے محبت اور اس کی قدر دلوں میں نہیں بٹھائی جاتی۔۔۔آج کل کے بچے کتابوں کو ایک بوجھ سمجھنے لگے ہیں اس لیے وہ اس کی عزت بھی نہیں کرتے۔۔۔۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تو ہمارے بڑے ہمیں علم سے محبت سکھاتے تھے کہیں بھی کوئی کتاب گر جاتی تھی تو اس کو چوم کے اٹھایا جاتا تھا اس سے ہمارے دلوں میں اس کی محبت اور قدر ہوتی تھی۔۔۔اسی طرح قلم اور وہ چیزیں جو علم حاصل کرنے میں ہماری معاون ثابت ہوتی ہیں ان کا احترام دلوں میں بٹھایا جاتا تھا۔۔۔لیکن آج کل جو چیز میں نے محسوس کی ان چیزوں کی قدروقیمت ہمارے دلوں سے نکل گئی ہے۔۔۔ہمارے بچے کاغذ کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں ان کو اس کی پرواہ بھی نہیں ہوتی کہ یہ ضائع ہوگا۔۔۔۔پینسل ربر پین اور دیگر چیزوں کا بھی اسی طرح بے دردی سے استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔۔بچے اسکول سے آکے اپنا بیگ اس طرح سے پھہینکتے ہیں کہ جیسے بہت بڑا بوجھ اتار دیا ہوا۔۔۔۔ہمارے بچے علم تو حاصل کر رہے ہیں لیکن اس علم سے اور اس سے جڑی تمام چیزوں سے محبت انکے دلوں میں پیدا نہیں ہورہی ۔۔۔اور جب تک کوئی بھی کام دل سے اور محبت سے نہیں کیا جاتا وہ کارآمد نہیں ہوتا۔۔۔اسی لیے جب وہ آگے پروفیشنل لائف میں جاتے ہیں اپنے کام کو بھی بوجھ سمجھ رہے ہوتے ہیں ان کو اپنے پیشے سے محبت نہیں ہوتی۔۔۔۔وہ ڈگری ہولڈر تو ہوتے ہیں لیکن علم کی محبت اور قدر ان کے دلوں میں نہیں ہوتی۔۔۔۔جب تک ہم علم سے محبت نہیں کریں گے اور کتاب کی عظمت کو نہیں سمجھیں گے ہم ایک اونچے اور اعلیٰ مرتبہ پر نہیں پہنچ سکتے۔۔۔
زمانہ کتنی ہی ترقی کرلے کتنی ہی ٹیکنالوجیز آ جائیں اور کتنا ہی ہم سائنس اور میڈیا سے منسلک ہوجائیں۔۔۔۔کتاب کی ہمیشہ عظمت برقرار رہے گی۔۔۔اور جو لوگ اس بات کو سمجھیں گے وہ ہی دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوں گے۔۔۔۔۔امید ہے ہم آنے والی نسل میں علم کی محبت اور قدر دلوں میں ضرور پیدا کریں گے۔۔۔۔آئیے ہم سب آج سے ہی اس چیز کا آغاز کرتے ہیں۔۔۔۔۔
علم حاصل کرنا عبادت ہے۔۔۔۔اللہ تعالی کی طرف سے جو وحی اترتی تھی جو آیتیں نازل ہوتیں تھی وہ پہلے رسول صلی اللہ علیہ وسلم پر آتی تھیں پھر اس کے بعد رسول اللہ صل وسلم کو صحابہ کو بتاتے تھے پہلے وہ صرف صحابہ کے دلوں میں محفوظ تھیں اس کو باقاعدہ تحریری شکل دی گئی اور اب وہ سب قرآن پاک کی صورت میں محفوظ ہے۔۔۔۔قرآن کریم کو تمام کتابوں میں سب سے افضل حیثیت حاصل ہے کیونکہ یہ اللہ کی طرف سے بھیجی ہوئی کتاب ہے
اس کے علاوہ بہت ساری کتابیں احادیث کی ہمارے پاس موجود ہیں جو بہت محنت کے بعد مرتب کی گئی ہیں۔۔۔۔اس کے علاوہ بہت سے علوم پر مختلف کتابیں لکھی گئیں ہمارے نصاب میں بھی بہت سی کتابیں شامل ہیں جن سے ہم مستفید ہوتے ہیں۔۔۔
میں جس اہم پہلو کو یہاں زیر غور لانا چاہ رہی ہوں وہ ہے علم سے محبت۔۔۔ہمارے دلوں میں کتاب کی عظمت اور اس سے جڑی جو بھی چیزیں ہوتی ہیں ان کی قدر و قیمت کا احساس کیسے ہو۔۔۔چاہے وہ نصاب کی کتابیں ہوں ۔۔۔۔نصاب کی کتابیں ایک خاص اہمیت کی حامل ہیں کیونکہ انہی کے بل بوتے پر ہم آگے بڑھتے ہیں ہمیں ڈگریاں ملتی ہین اور ہمیں اعلی مقام حاصل ہوتا ہے۔۔۔
اصل مقصد میرا یہ ہے کہ میں نے جو بات محسوس کی ہے ہم لوگوں میں اور ہمارے بچوں کے دلوں میں علم سے محبت ختم ہوتی جا رہی ہے۔۔۔ہمارے بچے نصاب کی کتابوں کو ایک بوجھ سمجھتے ہیں اور ان کی قدر اور اہمیت ان کے دلوں میں نہیں ہے۔۔۔مجھے ایسا لگتا ہے کہ ہمارے اسکولوں میں پڑھایا تو جاتا ہے لیکن علم سے محبت اور اس کی قدر دلوں میں نہیں بٹھائی جاتی۔۔۔آج کل کے بچے کتابوں کو ایک بوجھ سمجھنے لگے ہیں اس لیے وہ اس کی عزت بھی نہیں کرتے۔۔۔۔مجھے یاد پڑتا ہے کہ جب ہم چھوٹے ہوتے تھے تو ہمارے بڑے ہمیں علم سے محبت سکھاتے تھے کہیں بھی کوئی کتاب گر جاتی تھی تو اس کو چوم کے اٹھایا جاتا تھا اس سے ہمارے دلوں میں اس کی محبت اور قدر ہوتی تھی۔۔۔اسی طرح قلم اور وہ چیزیں جو علم حاصل کرنے میں ہماری معاون ثابت ہوتی ہیں ان کا احترام دلوں میں بٹھایا جاتا تھا۔۔۔لیکن آج کل جو چیز میں نے محسوس کی ان چیزوں کی قدروقیمت ہمارے دلوں سے نکل گئی ہے۔۔۔ہمارے بچے کاغذ کا بے دریغ استعمال کرتے ہیں ان کو اس کی پرواہ بھی نہیں ہوتی کہ یہ ضائع ہوگا۔۔۔۔پینسل ربر پین اور دیگر چیزوں کا بھی اسی طرح بے دردی سے استعمال کیا جاتا ہے۔۔۔۔بچے اسکول سے آکے اپنا بیگ اس طرح سے پھہینکتے ہیں کہ جیسے بہت بڑا بوجھ اتار دیا ہوا۔۔۔۔ہمارے بچے علم تو حاصل کر رہے ہیں لیکن اس علم سے اور اس سے جڑی تمام چیزوں سے محبت انکے دلوں میں پیدا نہیں ہورہی ۔۔۔اور جب تک کوئی بھی کام دل سے اور محبت سے نہیں کیا جاتا وہ کارآمد نہیں ہوتا۔۔۔اسی لیے جب وہ آگے پروفیشنل لائف میں جاتے ہیں اپنے کام کو بھی بوجھ سمجھ رہے ہوتے ہیں ان کو اپنے پیشے سے محبت نہیں ہوتی۔۔۔۔وہ ڈگری ہولڈر تو ہوتے ہیں لیکن علم کی محبت اور قدر ان کے دلوں میں نہیں ہوتی۔۔۔۔جب تک ہم علم سے محبت نہیں کریں گے اور کتاب کی عظمت کو نہیں سمجھیں گے ہم ایک اونچے اور اعلیٰ مرتبہ پر نہیں پہنچ سکتے۔۔۔
زمانہ کتنی ہی ترقی کرلے کتنی ہی ٹیکنالوجیز آ جائیں اور کتنا ہی ہم سائنس اور میڈیا سے منسلک ہوجائیں۔۔۔۔کتاب کی ہمیشہ عظمت برقرار رہے گی۔۔۔اور جو لوگ اس بات کو سمجھیں گے وہ ہی دنیا اور آخرت میں کامیاب ہوں گے۔۔۔۔۔امید ہے ہم آنے والی نسل میں علم کی محبت اور قدر دلوں میں ضرور پیدا کریں گے۔۔۔۔آئیے ہم سب آج سے ہی اس چیز کا آغاز کرتے ہیں۔۔۔۔۔
No comments:
Post a Comment